تحریر: سید سبطین شاہ
کچھ دنوں سے پاکستان کے ایک مشہور ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کا ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ وہ اس وقت ایک نئے محاذ پر ہیں۔ ویڈیو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے لئے دعا کریں اور ان کا ساتھ بھی دیں تا کہ وہ اس مشن میں کامیاب ہوسکیں۔ اس ویڈیو میں موصوف کے الفاظ یہ تھے، ’’میں ایک نئے محاذ پر لڑنے کے لیے نکلا ہوں۔ دعا کیجیئے کہ ہم سب مل کر اس کوشش میں کامیاب ہوں اور ہمارے ملک میں بے حیائی نہ پھیلے۔‘‘
کسی بھی مسئلے پر تبصرہ اور اس سے جڑے معاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ اس مشہور ڈرامہ نگار کے اس اعلانیہ مشن کے پیچھے ان کا وہ تلخ مکالمہ ہے جو مشہور سماجی کارکن ماروی سرمد سے چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر نشر ہوا۔
ماروی سرمد جن کا ہمیشہ ایک خاص ایجنڈا ہوتاہے، اپنی بات ختم ہونے پر خلیل الرحمان کی گفتگو کے دوران مدخل ہوئیں اور کہتی ہیں، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘
موضوع گفتگو، عورتوں کا آٹھ مارچ کا جلوس تھا، جس پر اس ٹی وی پروگرام میں ماروی سرمد اپنی بات مکمل کرچکی تھیں۔ پہلے وہ ایک عالم دین سینٹر مولانا فیض محمد کی گفتگو میں مخل ہوئیں اور کہنے لگیں، ’’میرا جسم میری مرضی، آپ کی مرضی نہیں چلے گی، مولانا کو مخاطب ہوکر کہنے لگیں، میرے بھائی۔ ہم جتنے بچے چاہیں گے، پیدا کریں گے، شوہر کے ساتھ تعلق بنائیں گے، نہیں چاہیں تو نہیں بنائیں گے۔ ہم اپنی مرضی کے مالک ہوں گے، اپنی مرضی کے مطابق، فیصلے کریں گے۔‘‘ مولان کہتے رہتے، ’’محترمہ مجھے بولنے دیں۔ ماروی جواب میں کہتی رہیں، ’’نہیں آپ نے بول لیا، اب میری باری ہے۔‘‘ پھر بھی مولانا فیض کہتے رہے، ’’محترمہ مجھے بات کرنے دیں۔‘‘
اب پروگرام کی خاتون اینکر خلیل الرحمان قمر کو بولنے کی دعوت دیتی ہیں تو وہ کہتے ہیں، ’’دونوں مہمانوں کو بہ سد احترام سلام قبول ہو، آپ جب دونوں بات کررہے تھے تو میں نے بیچ میں بات نہیں کی اور آپ سے گزارش ہے کہ اب جب میں بات کررہاہوں، بیچ میں مت بولیں تاکہ پتہ چلے کہ پڑھے لکھے لوگ اس موضوع پر بات کررہے ہیں۔ آپ کی اپنی رائے تھی، میں نے اس کو سنا اور اب آپ میرے بات سنیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عدالت نے یہ منع کردیا ہے، یعنی میرا جسم میری مرضی جیسے غلیظ اور گھٹیا نعرے کو منہا کردیا جائے۔ میں جب ماروی سرمد صاحبہ کو سنتا ہوں تو میرا کلیجہ ہلتا ہے۔ میں اس ملک کا باشندہ ہوں جہاں۔۔۔۔۔‘‘۔ ابھی خلیل الرحمان کی گفتگو جاری تھی کہ ماروی سرمد ان کی گفتگو میں بولنا شروع کردیتی ہیں، اور خلیل الرحمان اونچی آواز میں کہتےہیں کہ بیچ میں مت بولیئے۔ اب ماروی زور سے بولتی ہیں، ’’میری مرضی‘‘۔ اینکر بھی کہتی ہیں، ماروی صاحبہ انہیں بولنے دیں،
اب خلیل الرحمان طیش میں آتے ہیں اور اخلاقی حدود عبور کرکے کہتے ہیں، ’’تیرے جسم میں ہے کیا؟ اپنا جسم جا کر دیکھو، بے حیا عورت کے جسم پر کوئی تھوکتا تک نہیں، گھٹیا عورت، الو کی پٹھی۔ ۔ ۔ ۔‘‘
اس تلخی کے بعد خلیل الرحمان کی ادھوری فلسفیانیہ گفتگو دوبارہ شروع ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں، ’’میرا ملک ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہے، میرے ہاں اتنے مسائل ہیں جو حل نہیں ہورہے۔‘‘ خلیل الرحمان کی ماروی سرمد سے تلخی اتنی پراثر تھی کہ اس کے بعد ان کی یہ فلسفیانہ بات پھیکی پڑی جاتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ خلیل الرحمان نے جذبات میں ماروی سرمد کی مداخلت پر تلخ اور بیہودہ زبان استعال کی جس سے وہ اپنی اصلی بات کا اثر ہی زائل کربیٹھے۔ خلیل الرحمان کی ابتدائی بات بہت ہی خوبصورت تھی۔ وہ بہت اچھی اور فلسفیانہ بات کرنا چاہتے تھے لیکن اس بات میں ماروی سرمد روکاوٹ بن رہی تھیں لیکن انہیں چپ کرانے کے لیے خلیل الرحمان نے انتہائی غلیظ الفاظ منہ سے نکالے جو کسی بھی معزز شخصیت کو زیب نہیں دیتے۔
شاید ماروی سرمد چاہتی ہی یہی تھیں کہ کوئی انہیں اس طرح جواب دے اور یہ ایک ایشو بنے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہیں۔ اب لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایک کہرام برپا کیا ہوا ہے، بہت سے لوگ خلیل الرحمان کو سپورٹ کررہے ہیں اور کچھ ماروی سرمد کو ایک بہادر عورت کہہ رہے ہیں اور انہیں عورتوں کے حقوق کی علمبردار سمجھ رہے ہیں۔
ظاہراً میڈیا پر پوری دنیا کے سامنے ایک عورت کے لیے غلیظ زبان استعمال کرنا خلیل الرحمان قمر کی اخلاقی شکست ہے۔ اب وہ ایک عورت سے اخلاقی جنگ ہارنے کے بعد بے حیائی کی ختم کرنے کی جنگ لڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بداخلاقی کا سہارا لے کر بے حیائی کے خلاف لڑ سکتے ہیں؟
اس سلسلے میں ہم خلیل الرحمان قمر اور ان جیسوں کی الجھن دور کرنے کے لیے نبی رحمہ (ص) کے فرامین کا سہارا لیتے ہیں لیکن اس سے پہلے قدیم یونانی فلسفے کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے۔
قدیم یونانی فلاسفرز نے زور دیا ہے کہ انسان کی خوشحالی کے لیے علم، عقل اور اخلاقیات بہت ضروری ہیں۔ سقراط علم پر زور دیتے ہیں جبکہ ان کے شاگرد افلاطون کا کہنا تھا کہ علم کے ساتھ ساتھ عقل بھی بہت ضروری ہے۔ پھر افلاطون کے شاگرد ارسطو کا دور آتا ہے، ان کے نظریہ اخلاق کا مفہوم یہ ہے کہ اخلاقیات کے بغیر انسانی خوشحال آہی نہیں سکتی۔
اب آتے ہیں، تاجدار انبیاء کے در پر جنہوں نے ابتدائی چالیس سال تک اپنے کردار کے ذریعے تبلیغ کی اور دشمنوں نے بھی انہیں امین اور صادق کہا۔ ہم اس پیغمبر کے ماننے والے ہیں کہ وہ گندگی پھینکنے والی عورت کو بھی معاف کردیتے ہیں۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو مکارم اخلاق اور محاسن افعال تمام کرنے کے لئے معبوث فرمایا ہے۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے دو مقاصد بیان ہوئے ہیں۔
ا۔عمدہ اخلاق کو تکمیل تک پہنچانا
اور دوسرا
۲۔ افعا ل کی خوبصورتی کوکامل بنانا
پیغمبر اسلام نے چالیس سال تک اخلاقیات کو اوج تک پہنچایا اور اخلاقی معیار کو اتنا بلند کیا کہ مخالفین بھی کہہ اٹھے کہ آپ نے کبھی امانت میں خیانت نہیں کی اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا ہے۔
خلیل الرحمان قمر کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بے حیائی بداخلاقی سے ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ غلیظ زبان استعمال کریں اور پھر بے حیائی ختم کرنے کا دعوےٰ کریں۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے ہمیں اپنی اخلاقی اقدار کا سہارا لینا ہوگا۔ کبھی بھی ہمیں اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس جدوجہد میں اگر ہم ذرا بھی لرز گئے تو ہم اپنے اعلیٰ مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم کسی عورت سے بات کرتے ہوئے اپنے اخلاقی معیار سے گر جاتے ہیں۔ یہی تو خلیل الرحمان قمر کا امتحان تھا جس میں وہ ناکام ہوگئے۔ اپنی غلطی پر معذرت کرنا لینا ہی عقل مندی ہے۔ غلطی کا احساس کرلینا بڑاپن ہوتا ہے۔ معافی طلب کرنے والا چھوٹا نہیں ہوجاتا۔
جہاں تک ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے کا تعلق ہے، اس سے بغاوت کی بو آتی ہے۔ یعنی معاشرے کے موجودہ نظام سے بغاوت کی علامت ہے جس نے عورت کے جائز حقوق کو بھی دبوچ رکھا ہے۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جب کسی بھی مظلوم طبقے کو معاشرے میں پورے حقوق نہیں ملتے تو ان کے حقوق کا بہانہ بنا کر کچھ عناصر اپنے مقاصد حاصل کرنے کوشش کرتے ہیں۔ ان اہداف میں سستی شہرت، سیاست اور معاشی مفادات بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
بہرحال ہمارے معاشرے میں خواتین کو درپیش بہت سے مسائل ہیں۔ یہ مسائل گھروں سے لے کر معاشرے کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں۔ یہ سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ہم نے معاشرے میں عورتوں کو وہ مقام نہیں دیا جو انہیں ملنا چاہیے تھا۔ اسی وجہ سے ہمارا ملک اس رفتار سے ترقی نہیں کررہا جس طرح اسے ترقی کرنی چاہیے تھی۔ عورت اور مرد کو گاڑی کے دو پہیئے کہاجاتا ہے لیکن یہاں ایک پہیہ تیزی سے چل رہا اور دوسرے کی رفتاربہت سست ہے۔
خواتین کے لیے تعلیم کے مواقع ابھی تک بہت کم ہے اور جہاں تک معاشی مواقع کا تعلق ہے تو مردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی بھی دفتر میں چلے جائیں، وہاں اکثر مردوں کی بھرمار نظرآتی ہے لیکن ان کے مقابلے میں وہاں بہت کم خواتین نظر آئیں گی۔ کاروباری شعبے میں بھی عورتوں کا عمل دخل بہت کم ہے۔ جہاں تک گھریلو معاملات کا تعلق ہے، وہاں بھی اکثر مرد ہی اپنی حاکمیت جتلاتے ہیں، حتیٰ کہ مرد اولادیں بھی گھر میں پانی پینے کے لیے خواتین پر حکم چلاتی ہیں۔
اس صورتحال کا ہرگز مطلب بھی نہیں کہ بعض عناصر خواتین کے حقوق کے بہانے یہ نعرہ لگائیں، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، اس کے بجائے یہ نعرہ ہونا چاہیے تھا، ’’میرا حق میرا فیصلہ‘‘۔ خواتین کو اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے جدوجہد ضروری کرنی چاہیے لیکن عزت اور ناموس کی قیمت پر ہرگز نہیں۔ جہاں تک انسانی جسم اور اس کی مرضی کا تعلق ہے، اس کا ایک ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اگرچہ پروردگار کی طرف سے انسان کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے لیکن اچھے اور برے راستے بھی دکھا دیئے ہیں۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ انسان کے اختیارات محدود ہیں، یعنی پیدائش کا حق اور زندگی کے بعد موت کا اختیار بھی انسان کے پاس نہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ بھی سمجھنا لازمی ہے کہ انسان کی بعض حرکات شرک کے معنی میں آتی ہیں، یعنی تکبر وغیرہ وغیرہ۔ تکبر کرنے والے اپنے تکبر ہی میں مرجاتا ہے۔ ان باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں ایسا معاشرہ تخلیق کرنا ہے جو اعلیٰ اخلاقیات کا حامل ہو اور جہاں ہماری عمدہ اقدار کا خیال رکھا گیا ہو۔ ہم مغرب کی تقلید کرکے پاکستان کے معاشرے کو آگے نہیں لاسکتے اور نہ ہی ہم انتہاپسندانہ سوچ کے ذریعے ملک کو پس ماندگی سے نکال سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سے پہلے گھر سے اپنے بچوں کو اخلاقی تربیت دیں۔ ساتھ ساتھ معاشرے میں انہیں قوانین کا احترام سکھائیں، خاص طور پر خواتین کو ان کے حاصل شدہ حقوق سے آگاہ کیا جائے جو انہیں ملک کے آئین میں دیئے گئے ہیں۔ اسلام نے بھی خاص طور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔
ہمارے ملک و قوم کو ایک ایسی اعتدال پسندی کی ضرورت ہے جو اسلامی تعلیمات سے ضرور آراستہ ہو لیکن ہرقسم کی انتہاپسندی اور تنگ نظری سے دور ہو۔
(اس مضمون کے تحریر کنندہ پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور ایک طویل عرصے سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں)۔